فرحان خان تنيو

اک طویل مذاق

بلاگز

اسے ملک کی بدقسمتی کہا جائے یا پھر خوش قسمتی سے تشبیہ دی جائے کہ 3 بار وزارت عظمیٰ جیسے اہم ترین منصب پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے سیاستدان میاں نوازشریف آج کل اپنا نیا اور ملٹری اسٹبلشمنٹ مخالف سیاسی بیانیہ ببانگ دہل سب کے سامنے پیش کرتے نظر آرہے ہیں کہ بس اب بہت ہوگیا اور آئندہ سیاسی معاملات صرف سیاستدان ہی دیکھیں گے، کسی تیسری طاقت کو ذرہ برابر بھی مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بڑے صوبے سے تعلق رکھنے اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ناتے میاں صاحب کے لہجے میں یہ بدلاؤ شاید پہلی بار تب ممکن ہوا جب انہیں تیسری مرتبہ آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی پی ایم ہاؤس سے باہر نکالا گیا تھا اور اس بار وہ خاموش نہیں بیٹھ سکے تھے اور ’مجھے کیوں نکالا‘ کا سیاسی سلوگن لے کر اسلام آباد سے لاہور تک لانگ مارچ کیا تھا۔ میاں صاحب کو اس سے پہلے 1992 اور 1999 میں بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی تھی، مگر اس کے باوجود ان کے لہجے میں وہ تلخی اور کڑواہٹ کبھی نہیں دیکھی گئی جو اب ہے۔

ماضی قریب میں اقتدار سے زبردستی الگ کرنے، سزائیں پانے کے باوجود میاں صاحب اپنے تمام بیانات میں الفاظ کے چناؤ میں خاص خیال رکھتے تھے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے خلاف یوں براہ راست کڑی تنقید نہیں ہوتی تھی جیسے آج کل ہورہی ہے۔ نہ صرف نواز شریف بلکہ مریم نواز بھی اپنے والد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اس معاملے میں ہمیشہ سے شدت پسند رہی ہے، جس کی مثال شہید ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو زرداری تک کا اسٹبلشمنٹ کے خلاف اپنا بیانیہ بلا جھجھک سامنے لانا ہے۔
بہرحال سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر اس ملک میں سیاست کو ایک مذاق کیوں بنایا گیا کہ آج 73 برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ایک سمت متعین نہیں ہوسکی ہے اور سیاسی معاملات کے مستقل طور پر سنبھل جانے کے دور دور تک کوئی امکانات نظر نہیں آتے؟

میاں نوازشریف کی ملٹری مخالف تقاریر سننے کے بعد سوالات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے کہ اگر ان کا موجودہ سیاسی بیانیہ درست ہے تو آخر کیوں ایک بدحال ملک و عوام کی قسمت کے ساتھ بے رحمی سے کھیلا جارہا ہے؟ آخر سیاستدانوں کو آپس میں لڑائے رکھنے کی کیا وجہ ہے اور کیا اس قسم کے حربے اب دیرپا بھی ثابت ہو سکتے ہیں؟

موجودہ سیاسی صورتحال بھی حسب معمول تصادم سے بھرپور ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے دو جماعتیں حصول اقتدار میں کامیاب ہوتی تھیں تو مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف احتجاج اور لانگ مارچ کی راہ اختیار کرتی تھیں۔ 2008 میں میاں نوازشریف کا ججز کی بحالی کے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کیا گیا لانگ مارچ تو ابھی کل کی بات ہے۔ اس کے بعد میموگیٹ اسکینڈل پر سوموٹو لینے کی استدعا لے کر خود سپریم کورٹ چلے جانا بھی میاں صاحب کے ماضی قریب کے قصے ہیں۔ یہ سب انہوں نے کیوں کیا؟ کیا ایسے اقدام مسلم لیگ نون کی بحیثیت ایک جماعت کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں اٹھائے گئے؟ یا پھر میاں نوازشریف کے ذاتی فیصلے تھے؟ یا پھر انہیں بھی وہیں سے ہدایات و احکامات صادر ہوتے رہتے تھے جہاں سے بقول ان کے آج کل عمران خان کو مل رہے ہیں؟ اگر میں غلط نہیں ہوں تو میاں نوازشریف نے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی تھی، مگر جب 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو اکثریت سے کامیابی نصیب ہوئی اور وہ خود تیسری بار وزیراعظم بنے تب عمران خان اور علامہ طاہرالقادری نے جب ان کے خلاف ڈی چوک پر دھرنے لگائے تو پیپلز پارٹی نے بدلہ لینے کے بجائے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور یوں باقی جماعتوں کی حمایت بھی میاں صاحب کو مل گئی اور ان کا تختہ دھڑن ہونے سے بچ گیا تھا۔

بہرحال آج کا نوازشریف، کل کے نوازشریف سے مختلف ضرور ہے اور شاید اب مستقبل میں موقع ملنے پر وہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے سیاہ و سفید کی مالک قوتیں کیا اب میاں صاحب، ان کی دختر مریم نواز یا ان کی جماعت کو اب ماضی کے جیسا موقع فراہم کریں گی؟ اس سوال کا جواب اگر نہیں ہے تو پھر حالات واضح طور پر تصادم کی طرف جائیں گے۔ اگرچہ محترمہ بینظیر بھٹو کی تیرھویں برسی کے جلسے سے اپنے ورچوئل خطاب میں سابق صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے پی ڈی ایم قیادت کو اپنی سوچ اور حکمت عملی تبدیل کرنے کا مشورہ دے کر کسی حد تک اس بات کی وضاحت ضرور کردی ہے کہ صرف اسمبلیوں سے استعفے دے کر حکومت کو نہیں گرایا جاسکتا، اس ٹاسک کےلیے ’’کچھ اور‘‘ بھی کرنا ہوگا۔

شہید بینظیر بھٹو کی برسی کے جلسے میں پیپلز پارٹی کی روایتی حریف جماعت مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کی شرکت اور جلسے سے خطاب ملکی سیاست میں ایک تاریخی تبدیلی ضرور ہے، مگر شاید اس بار بھی جمہوریت مخالف قوتیں جو پچھلی سات دہائیوں سے بہت مضبوطی سے اپنے ٹاسک پورے کرتی آرہی ہیں، اس بار بھی کوئی ایسا ایڈونچر کروادیں جس سے ان کے مخصوص بیانیے کو تقویت مل جائے کہ سیاستدان نااہل ہیں یا اس ملک میں جمہوری پارلیمانی نظام نہیں چل سکتا وغیرہ۔ یا پھر جمہوریت مخالف ٹولہ حزب اختلاف میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہوجائے، جس سے کسی اور کو نہیں صرف اور صرف ان قوتوں کو فائدہ حاصل ہوگا جو اک طویل عرصے سے جمہوریت کو جوتی کی نوک پر رکھ کر ملک و عوام کے ساتھ طویل مذاق کرتی آرہی ہیں۔

سیاستدانوں اور ججز کی تاریخی غلطیوں یا پھر بزدلی کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ نے اس ملک و عوام کی قسمت کے ساتھ جو مذاق شروع کیا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ جس کے باعث 3 وزرائے اعظم سمیت سیکڑوں بے گناہ لوگوں کی جانیں گئیں، لاتعداد رہنماؤں اور کارکنوں نے قید و بند سمیت دیگر اذیتیں برداشت کیں۔ افسوس یہی ہے کہ ملک و قوم کے ساتھ طویل مذاق کا تسلسل آج بھی جاری و ساری ہے۔

نوٹ : موقف اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
Moquf.com@gmail.comپر ای میل کردیجیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے