امانت بخاری

وطن سے محبت : احادیث مبارکہ کی روشنی میں

بلاگز

امانت بخاری

وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کے دل میں بسنے والے بنیادی احساسات میں شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس جذبے کو نہ صرف اپنے عمل سے ظاہر کیا بلکہ اپنی تعلیمات میں بھی اس کی اہمیت کو واضح کیا۔ آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ، جو آپ کا آبائی وطن تھا، سے بے پناہ محبت کی اور ہجرت کے وقت اس محبت کا برملا اظہار کیا۔
جب نبی ﷺ کو ہجرت کے لیے مجبور کیا گیا تو آپ نے مکہ مکرمہ کو الوداع کہتے ہوئے فرمایا:”اللہ کی قسم! تم اللہ کی زمین میں سب سے بہترین اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب جگہ ہو، اور اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی یہاں سے نہ جاتا۔”(سنن الترمذی 3925)
یہ الفاظ اس بات کوعیاں کرتے ہے کہ وطن سے محبت نہ صرف حق بلکہ ایک فطری اور مثبت جذبہ ہے۔ حضور ﷺ نے اپنے وطن کی قدر اور اس کی اہمیت کو اپنے دل میں بسایا اور امت کو بھی یہی سبق دیا کہ جہاں آپ کا تعلق ہو، اس جگہ سے محبت اور وفاداری کا اظہار کرنا چاہیے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ انتہا پسندی، تشدد اور فساد کے خلاف پیغام دیا۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بار بار امن، رواداری اور محبت کا درس دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ ایسے افراد کو ناپسند کیا جو معاشرے میں فساد، فتنہ اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:”وہ ہم میں سے نہیں ہے جو معاشرے میں فساد پھیلائے۔”یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام فساد، انتشار اور تشدد کو کسی بھی صورت میں پسند نہیں کرتا۔ قرآن پاک میں بھی اللہ تعالیٰ نے بار بار فساد پھیلانے والوں کی مذمت کی ہے۔ سورہ البقرہ میں فرمایا گیا:”اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہو۔”
(سورہ البقرہ: 205)اس آیت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کا مقصد زمین میں امن و امان اور اصلاح ہے، نہ کہ انتشار اور فساد۔
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں رواداری، امن اور محبت کا درس نمایاں ہے۔ آپ ﷺ کی زندگی کے مختلف واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ آپ نے کبھی بھی نفرت اور تعصب کو فروغ نہیں دیا بلکہ ہر قدم پر دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا پیغام دیا۔
"تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔”(صحیح بخاری)
یہ حدیث رواداری اور باہمی احترام کی بہترین مثال ہے۔ نبی ﷺ نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو یہ سبق دیا کہ دوسروں کے ساتھ نرمی، محبت اور عزت کے ساتھ پیش آئیں۔
اسلام کا بنیادی پیغام صبر، تحمل اور برداشت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی کہ اگر کسی موقع پر سختی یا ناانصافی کا سامنا ہو تو صبر اور برداشت سے کام لیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”مومن وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ میل جول اور برداشت کرتا ہے۔”(سنن الترمذی) اس حدیث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمان کو دوسروں کے ساتھ محبت اور صبر سے پیش آنا چاہیے اور کسی بھی قسم کی انتہا پسندی اور عدم برداشت کو فروغ نہیں دینا چاہیے۔
اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں امن کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنی سیرت طیبہ میں ہمیں یہ سبق دیا کہ معاشرتی امن اور استحکام کے لیے محبت، صلح جوئی اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام ضروری ہے۔
آپ ﷺ نے ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ بھی رحم اور محبت کا برتاؤ کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر، جب آپ کو مکہ والوں پر مکمل غلبہ حاصل تھا، آپ نے عام معافی کا اعلان کیا اور کہا:”آج تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم آزاد ہو۔”یہ واقعہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ نبی ﷺ کا پیغام ہمیشہ امن، صلح اور محبت کا تھا، اور آپ نے ہمیشہ انتقام کی بجائے معافی اور رحم کو ترجیح دی۔
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں وطن سے محبت، امن، رواداری اور محبت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ آپ ﷺ نے فساد اور انتہا پسندی کی ہر صورت کو ناپسند فرمایا اور امن و سلامتی کا پیغام دیا۔ آپ کا پیغام آج کے دور میں بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ آپ کے زمانے میں تھا۔ ہمیں آپ ﷺ کی سیرت سے سبق لینا چاہیے اور اپنے معاشرے میں امن، محبت اور رواداری کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ہم ایک بہتر اور خوشحال معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے